تہران سے حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق آیت اللہ العظمی جوادی آملی نے احمد آباد دماوند کے رہائشیوں کے ساتھ برگزار ہونے والے اپنے ایک اجلاس میں کہا ہے کہ انسانوں کو ہر دن اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ اس نے اپنی زندگی کے بدلے کیا حاصل کیا ہے.
انہوں نے کہا کہ امام کاظم علیہ السلام نے فرمایا کہ :«لَیسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یحَاسِبْ نَفْسَهُ فِی کُلِّ یوْمٍ فَإِنْ عَمِلَ حَسَناً اسْتَزَادَ اللَّهَ وَ إِنْ عَمِلَ سَیئاً اسْتَغْفَرَ اللَّهَ مِنْهُ وَ تَابَ إِلَیهِ»
ترجمہ : ہمارا شیعہ وہ ہے جو اپنا حساب و کتاب رکھتا ہو کہ آج میں نے کیا کیا؟
میں نے آج کیا حاصل کیا ؟
میں نے 24 گھنٹے دیئے ، میں نے وقت دیا ، میں نے یہ 24 گھنٹے دیئے ، مجھے کیا ملا؟
جس طرح میں اپنے سامان کا کھاتہ کھولتا ہوں، جس سے میں نے یا کھویا ہے یا فائدہ اٹھایا ہے ، یا مجھے ان میں سے کچھ بھی نہیں ملا ہے ، وہ زندگی جو میں نے گزاری ہے ، اگر میں حساب نہیں کروں کہ آج میں نے کیا کیا ہے ؟ کونسی خدمت میں نے آج کی ہے ؟ کونسی عبادت کو میں نے بجا لایا ہے ؟
امام علیہ السلام نے فرمایا کہ : یہ ہم میں سے نہیں ہے! «لَیسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یحَاسِبْ نَفْسَهُ فِی کُلِّ یوْمٍ».جس نے روزانہ اپنا محاسبہ نہیں کیا۔
اگر ـ إن شاء الله ـ اس نے ایک نیک کام کیا ، عبادت کی ،خدمت کی ، تو خدا کا شکر ادا کرو اور اس سے مزید توفیق طلب کرے اور اگر خدا نخواستہ کہیں اس سے کوئی لغزش یا کوتاہی ہوئی تو استغفار کرے ،توبہ کا دروازہ کھلا ہے.
حوالہ : الکافی، ج۲، ص۴۵۳.
حضرت آیت اللہ العظمی جوادی آملی : ہمیں بتایا گیا ہے کہ : «حَاسِبُوا أَنْفُسَکُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا»
ترجمہ: اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ محاسبہ کیا جائے.
حوالہ :وسائل الشیعه، ج ۱۶، ص۹۹.
«زِنُوا أَنْفُسَکُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُوزَنُوا»
ترجمہ : اپنے (نفوس) کو تولو قبل اس کے کہ تولا جائے.
حوالہ: نهج البلاغه, خطبه۸۹.
آپ دیکھیں ! کہ بہت سے لوگ اپنے گھروں میں ایک ترازو رکھتے ہیں اس کے ذریعے اپنا وزن کرتے ہیں کہ وزن بڑھ گیا ہے یا پھر گھٹ گیا ہے،یہ کام ایک اچھا کام ہے ، کیونکہ اگر اسکا وزن بڑھ گیا ہے تو ، وہ اس کا علاج کرسکتے ہیں اور اگر اسکا وزن گھٹ رہا ہے یا وہ کمزوری کا احساس کر رہے ہیں تو ، وہ وزن کے توازن کو برقرار رکھنے کیلئے موثر اقدامات کرسکتے ہیں، یہ کام ایک اچھا کام ہے ،غلط نہیں ہے ۔
لیکن درجہ ذیل روایتوں میں آیا ہے کہ
«زِنُوا أَنْفُسَکُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُوزَنُوا»
ترجمہ : اپنے (نفوس) کو تولو قبل اس کے کہ تولا جائے.
اور «حَاسِبُوا أَنْفُسَکُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا»
ترجمہ: اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ محاسبہ کیا جائے.
یہاں بھی ، امام کاظم علیہ السلام اور دوسرے ائمہ (ع) کی بابرکت ذوات مقدسہ نے کہا کہ : آپ خود ہی دن رات اپنا محاسبہ (وزن) کر سکتے ہو، پیمائش کی ضرورت ہے ، اگر کوئی شخص کسی چیز کو ناپنا چاہیے،تو ترازو کی ضرورت ہوتی ہے ، پیمانہ قرآن اور ائمہ کرام علیہم السلام کے قول ہیں. کہ حقیقت کیا ہے؟ باطل کیا ہے ؟ سچائی کیا ہے ؟ جھوٹ کیا ہے ؟ خیر کیا ہے ؟ شر کیا ہے ؟بہتر کیا ہے ؟ قبیح کیا ہے ؟
انہوں نے سب کچھ بتایا ہے ؛ کہا پیمانے کی ضرورت ہے ، فرمایا کہ : ہم نے تمہاری طرف پیمانہ بھیجا۔
آیت الله العظمی جوادی آملی نے
یہ بیان کرتے ہوئے انسان کو اپنی زندگی گزارنے کے بدلے میں جو کچھ حاصل ہوا ہے اس کا ہر روز محاسبہ کرنا چاہیے ،کہا کہ جو شخص اپنا محاسبہ نہیں کرتا ہے وہ اپنے نفع اور نقصان کی تشخیص نہیں کر سکتا ۔
سورہ مبارکہ اعراف میں خداوند متعال فرماتا ہے کہ : وَالْوَزْنُ یَوْمَئِذٍ الْحَقُّ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِینُہُ فَاٴُوْلٰئِکَ ھُمَ الْمُفْلِحُونَ.
ترجمہ: اور اس روز( اعمال کا) وزن کرنابرحق ہے، (اور ان کی قیمت معین کرنا) برحق ہے ، وہ لوگ جن کی میزان (عمل) بھاری ہے وہ فلاح یافتہ ہیں ۔
حوالہ :سوره اعراف، آیه نمبر ۸.
«و الوزن حق» نہ ہی کوئی وزن ہے ، فرمایا کہ :
قیامت کے ترازو کے ایک پلڑے پرحق کو رکھ دیں گے اور دوسرے پلڑے پر اعمال اور عقائد کو تولیں گے :﴿وَ الْوَزْنُ یوْمَئِذٍ الْحَقُّ﴾یعنی ، ہم حق کو ایک طرف رکھتے ہیں ، پھر ہم نماز کو حق کے ساتھ ناپ لیتے ہیں ، خدمت کو حق سے ماپا کرتے ہیں اور اعتقاد کو حق کے ساتھ ماپتے ہیں۔
ہم سے کہا گیا ہے کہ آپ اس حقیقت کو درک کریں ،حق کو وزن اور پیمائش کا معیار قرار دیں ، پھر اپنے اعتقادات ، اخلاق اور اوصاف کو حق کے ساتھ مقایسہ کریں اور اگر کوئی اہل محاسبہ نہ ہوا تو وہ ہم میں سے نہیں ہے ، کیوں ؟؟
اس لئے کہ یہ اپنے فوائد اور نقصانات کی درست تشخیص نہیں کر سکتا .
دماوند کے مقامی لوگوں کے گھروں پر کیں گئیں تقاریر سے مآخذ .